Tuesday, June 18, 2019

محمد مرسی: مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر جن کا تختہ الٹ دیا گیا

محمد مرسی جمہوری طور پر منتخب ہونے والے مصر کے پہلے صدر تھے لیکن صرف ایک ہی برس کے بعد تین جولائی سنہ 2013 کو فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
فوج کے اس اقدم سے پہلے محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو چکے تھے تاہم انھوں نے فوج کے اس الٹی میٹم کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ سنہ 2011 میں حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے سیاسی بحران کو جلد از جلد حل کیا جائے۔
تختہ الٹ دیے جانے کے بعد چار ماہ تک محمد مرسی کو نامعلوم مقامات پر قید رکھا گیا اور پھر ستمبر سنہ 2013 میں حکومت نے اعلان کیا کہ اب ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے گا۔
حکومت کا الزام تھا کہ محمد مرسی نے اپنے حامیوں کو صحافی اور حزب مخالف کے دو رہنماؤں کو قتل کرنے پر اکسایا اور کئی دیگر افراد کو غیر قانونی طور پر قید کیا اور ان پر تشدد کروایا تھا۔
حکومت نے یہ الزامات صدارتی محل کے باہر ہونے والے ان ہنگاموں کی بنیاد پر عائد کیے تھے جن میں اخوان المسلمین کے کارکنوں اور حزب مخالف کے مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا تھا۔
محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے 14 دیگر سرکردہ رہنماؤں پر قائم کیے جانے والے ان مقدامات کی سماعت نومبر سنہ 2013 میں شروع ہوئی۔
مقدمے کی پہلی سماعت پر کٹہرے میں کھڑے محمد مرسی نے نہ صرف چیخ چیخ کر کہا تھا کہ انھیں ’فوجی بغاوت‘ کا شکار کیا گیا ہے بلکہ انھوں نے اس عدالت کو ماننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا ’ملک کے آئین کے مطابق میں جمہوریہ کا صدر ہوں اور مجھے زبردستی قید کیا گیا ہے۔‘
لیکن اپریل سنہ 2015 میں محمد مرسی اور ان کے دیگر ساتھیوں کو 20، 20 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اگرچہ انھیں اپنے کارکنوں کو قتل پر اکسانے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا تاہم انھیں مظاہرین کو حراست میں لینے اور ان پر تشدد کرنے کے جرائم کا مرتکب پایا گیا۔
اس کے علاوہ محمد مرسی کو کئی دیگر جرائم کا بھی مرتکب پایا گیا جن میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کے گٹھ جوڑ سے سنہ 2011 میں قیدیوں کو چھڑانے سے لے کر خفیہ سرکاری معلومات افشا کرنے، دھوکہ دہی اور توہین عدالت کے الزامات شامل تھے۔
محمد مرسی سنہ 1951 میں دریائے نیل کے کنارے واقع شرقیہ صوبے کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے تھے۔
انھوں نے سنہ 1970 کے عشرے میں قاہرہ یونیورسٹی سے انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد وہ پی ایچ ڈی کے لیے امریکہ چلے گئے تھے۔
مصر واپسی پر وہ زقازیق یونیورسٹی میں انجنیئرنگ کے شعبے کے سربراہ تعینات ہوئے۔
اس دوران وہ اخوان المسلمین کے نظم کے اندر بھی ترقی کرتے رہے اور جماعت کے اس شعبے میں شامل ہو گئے جس کا کام کارکنوں کو رہنمائی فراہم کرنا تھا۔
سنہ 2000 سے لے کر سنہ 2005 کے درمیانی عرصے میں وہ آزاد رکن کی حیثیت سے اس پارلیمانی اتحاد میں بھی شامل رہے جس میں اخوان المسلمین بھی شامل تھی۔
لیکن اس کے بعد وہ اپنے آبائی حلقے سے انتخابات ہار گئے۔ محمد مرسی کا دعویٰ رہا ہے کہ انھیں دھاندلی سے ہرایا گیا تھا۔
انھوں نے رکن پارلیمان کی حیثیت سے لوگوں کو اپنے انداز خطابت سے متاثر کیا، خاص پر ان کی وہ تقریر خاصی مشہور ہوئی تھی جب سنہ 2002 میں ریل کے بڑے حادثے کے بعد انھوں نے سرکاری نااہلی کے لتے لیے تھے۔
اپریل سنہ 2012 میں محمد مرسی کو اخوان المسلمین کا صدارتی امیدوار منتخب کر لیا گیا تھا۔ انھیں امیدوار بنانے کے لیے جماعت کے نائب رہنما اور مشہور کاروباری شخصیت خیرت الشتار پردباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیں۔
اگرچہ خیرت الشتار کے مقابلے میں محمد مرسی کو کم کرشماتی شخصیت کا حامل سمجھا جاتا تھا لیکن مرسی اس وقت اپنی جماعت ’حزب الحریت و العدل (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) کے چیئرمین تھے اور جماعت کا خیال تھا کہ ان کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران مرسی نے خود کو ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کیا جو حسنی مبارک کے دور کی بڑی بڑی شخصیات کو اقتدار میں آنے سے روک سکتا تھا۔
جون سنہ 2012 میں ہونے والے انتخابات میں چند نشستوں کی برتری سے اقتدار میں آنے والے مرسی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک ایسی حکومت کے سربراہ ہوں گے جو مصر کے تمام شہریوں کے لیے کام کرے گی۔
لیکن ناقدین کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ایک سالہ ہنگامہ خیز اقتدار کے دوران عام لوگوں کی بھلائی میں ناکام ثابت ہوئے۔ ناقاین کا الزام تھا کہ انھوں نے ملکی سیاست میں اسلام پسندوں کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی جس سے اقتدار اخوان المسلمین کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتا جا رہا تھا۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ملکی معیشت کو درست سمت میں نہیں چلا پا رہے تھے حالانکہ ان کے خود اقتدار میں آنے کی وجہ بری معیشت اور مہنگائی تھی جس کے بعد لوگوں نے حقوق اور معاشرتی انصاف کے حق میں جلوس نکالنا شروع کر دیے تھے۔
عوامی سطح پر محمد مرسی کی حکومت کی مخالفت میں اضافہ نومبر سنہ 2012 میں اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے اسلام پسند ارکان کی اکثریت والی پارلیمان سے ایک ایسا نیا آئین بنانے کا حکم دیا جس کے بعد صدر کے صوابدیدی اختیارات میں بہت اضافہ ہو جاتا۔
حزب مخالف کے کئی دنوں کے احتجاج کے بعد محمد مرسی اپنے حکم نامے کی شقوں میں کمی کرنے پر رضامند ہو گئے، لیکن اسی ماہ اس وقت ان کے خلاف احتجاج میں اضافہ ہو گیا جب قانون ساز اسلمبی نے عجلت میں آئین کا ایک مسودہ منظور کر دیا حالانہ اسمبلی میں موجود سکیولر، لبرل اور مسیسحی ارکان نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔
ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی بےچینی اور افراتفری کے ان دنوں میں محمد مرسی نے ایک نیا صدارتی حکم نامہ جاری کر دیا جس کے تحت 15 دسمبر کو آئینی مسودے پر ریفرنڈم تک قومی اداروں اور پولنگ سٹیشنوں کی حفاظت کے ذمہ داری مسلح افواج کے سپرد کر دی گئی۔
ناقدین کہتے ہیں کہ یہ صدارتی حکم ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کے مترادف تھا۔
اگرچہ نئے چارٹر کی منظوری کے بعد فوج واپس بیرکوں میں چلی گئی لیکن چند ہی ہفتوں کے اندر اندر نہر سویز کے کنارے شہروں میں صدر مرسی کے حامیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان تصادم اور ہنگاموں کے بعد ایک مرتبہ پھر ان علاقوں میں فوج تعینات کر دی گئی۔ ان ہنگاموں میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
23 جنوری سنہ 2013 کو اس وقت کے فوج کے سربراہ اور موجودہ صدر، عبدالفتاح السیسی نے خبردار کیا تھا کہ ملک میں جاری سیاسی بحران کے نتیجے میں ’ریاست منہدم ہو سکتی ہے۔‘
اپریل کے آخر میں حزب اختلاف کے کارکنوں نے تمرد (بغاوت) کے نام سے گلی محلوں میں ایک بڑی مہم کا آغاز کر دیا جس میں لوگوں سے ایک ایسی پٹیشن یا عوامی درخواست پر دستخط کرنے کو کہا گیا جس کا متن یہ تھا کہ محمد مرسی سکیورٹی بحال کرنے اور معیشت پر قابو پانے میں ناکام ہو چکے ہیں، اس لیے ملک میں نئے صدارتی انتخابات کرائے جائیں۔
اور پھر تمرد کی کال پر جب تین جون سنہ 2013 کے دن صدر مرسی کے اقتدار کا ایک سال پورا ہونے پر لوگوں سے باہر نکلنے کو کہا گیا تو لاکھوں افراد مصر کی سڑکوں پر نکل آئے۔
صدر منتخب ہونے کی پہلی سالگرہ کی شام صدر محمد مرسی نے قوم سے جو خطاب کیا اس میں ان کا لہجہ مصالحت والا تھا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ان سے ’بہت سی غلطیاں ہوئیں اور اب ان غلطیوں کو درست کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‘
محمد مرسی کے خلاف مظاہروں میں شدت آنے کے بعد فوج نے یکم جولائی کو انھیں متنبہ کیا کہ اگر انھوں نے 48 گھنٹوں کے اندر اندر عوام کے مطالبات نہ مانے تو وہ مداخلت کر کے اپنا ’روڈ میپ‘ نافذ کریں گے۔
فوج کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن کے قریب آتے آتے مرسی نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ وہ مصر کے جائز رہنما ہیں اور اگر انھیں زبردستی ہٹانے کی کوشش کی گئی تو ملک میں افراتفری پھیل جائے گی۔
مصر کی فوج نے تین جولائی کی شام کو آئین کو معطل کر دیا اور صدارتی انتخابات سے پہلے ایک ٹیکنوکریٹک عبوری حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا۔
محمد مرسی نے اس اعلان کو ’بغاوت‘ قرار دیا تھا۔ انھیں تین جولائی کو ان کے اقتدار کے پہلے برس کی تکمیل پر ملک میں لاکھوں افراد کے مظاہروں کے بعد فوج نے اقتدار سے الگ کر دیا تھا۔ انھیں ایک خفیہ مقام پر زیرِ حراست رکھا گیا۔
محمد مرسی کے حامیوں نے مصر سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
مصر کی فوج نے 14 اگست کو دارالحکومت میں اخوان المسلمین کے دو کیمپوں پر دھاوا بول دیا۔ اس کارروائی میں کم سے کم 1000 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

Tuesday, June 11, 2019

在野火肆虐的加州,水管理机制成为焦点

7月末燃起的“门多西诺复合大火”是加州历史上最大的一场野火,过火面积30万英亩,其中大多数是林地。加州面临的问题是如此规模的大火并非个例

加州20起最大的野火中有15起是本世纪发生的。并且,该州记录上最具破坏性的大火中有6起发生在过去十个月内。

气候变化使火情更加恶化,让应对更加棘手。与此同时,特朗普政府继续采取狭隘商业利益优先的土地管理方式,但未采取任何火灾防控措施,对气候风险视而不见。

这些大火让加州全境水资源短缺这样一个长期存在的环境危机成为关注的焦点。围绕(深受气候变化影响的)供水管理的讨论如火如 科学家们也预测该地区的“降水摆动”事件将会增加。“降水摆动”是指气候在极湿和极干之间快速转变,从而使水资源配置更加困难,基础设施遭到破坏。

在水短缺的时候,围绕资源的政治斗争就会加剧。美国西部的水政治臭名昭著,历史上各种调水的大计划层出不穷。

洛杉矶的成功和发展要归因于通过一条数百英里长的欧文斯河引水渠。这项调水工程(有的人称之为“偷水”)的水权是通过可疑的方式和欧文斯河谷的破产农民获得的。

特朗普总统似乎对加州中央河谷的工业化农民很是同情。他们想要占有更多的水资源,而这里的一些水被拦在河中以保护三角洲胡瓜鱼和国王鲑等濒危物种

这些农民在政治上很有影响力,水对他们来说很珍贵。与其他州相比,加州粮食产值更高。这里种植了美国三分之一的蔬菜和三分之二的水果和坚果,包括扁桃仁等“渴水”作物。

加州的火与水危机都很难解决。它们要求将公众的需要纳入稀缺资源的管理办法,而非只考虑特殊利益。这意味着水资源的管理和定价决策非常艰难,可能会伤害到某些集团,要么是强迫农民改变作物品种,要么强迫公众为他们的用水增加付费

但显而易见,任何不考虑气候变化影响的方法终将失败。本周浓烟继续笼罩着美国西部,而在一些地区,朝阳都在浓烟映衬之下变得血红。

并非只有迷信的人会认为这可能预示着会发生更糟的事情。毕竟,美国西部正在燃烧,而水正在枯竭。荼,因为这与加州居民和企业的未来前景息息相关

1970年以来,美国西部的温度上升幅度是全球平均的2倍。今年7月是加州有记录以来最热的一个月份。据加州大学洛杉矶分校气候科学家丹尼尔·斯万说,加州近来一半的野火要归因于气候变化引起的极热天气。

斯万说:“供野火肆虐的林地……前所未有的干燥,去年冬天的低降水量、今夏的极度高温、再加上长期干旱的影响,共同造成了这一结果。”

根本原因

加州人口和经济的增长再加上糟糕的规划工作,使更多人和建筑面临风险。野火活跃度的增加意味着加州和其他州用于灭火的支出增加了,而留给防火的钱则减少了。

克林顿和奥巴马政府期间担任美国内政部副部长的大卫·海斯说:“如果你否认变化的复杂性和影响的显著性,你就不会拿出足够的资源对其作出反应。”

特朗普政府对于野火与气候变化之间的联系轻描淡写,这毫不奇怪。

现任内政部长莱恩·辛克一开始就否认二者的联系,然后接着说:“很清楚,夏季变长了,干旱更干、温度更高。毫无争议的是,已死和将死的树木成了大规模野火的驱动力……这就是各种不利因素共同导致的一场‘完美风暴’,无论你是否相信气候变化,都不会减轻政府林业主管部门的责任。”

对于辛克和特朗普政府的其他成员来说,气候变化的明显迹象给他们的工作平添了麻烦,因为他们要放宽环境法规来开创新的商机,而且通常是在之前受到保护的联邦土地上。

辛克将他的批评者们称为“环境恐怖主义”,这些人反对他“工业优先”的森林管理方式,很多人认为这种方式是对采伐者的救济。

特朗普用怪癖的风格对野火作出回应,抱怨稀缺的水资源用错了地方,建议应该把水“优先用于扑灭野火,而非保护濒危物种”。

但与其他用途相比,防火所需的水是微不足道的。加州消防员们已经说了有足够的水来灭火。

水归谁手

不过,特朗普总统的发言无意中引起了人们对加州和美国西部另一项危机的关注,气候变化让这个危机更加严重,一触即发:谁在使用稀缺的水资源,用来做什么?

气候变化使加州的水危机更加严峻,导致干旱期更长,同时使内华达山脉的积雪减少,而加州四分之三以上的淡水都来自内华达山脉的积雪